میں نے پہلے تو یاروں کو آواز دی
اور پھر دنیا داروں کو آواز دی
اشک دریا کی صورت نکل آئے تو
چشمِ تر نے کناروں کو آواز دی
میں بھی چلنے لگا آسماں کی طرف
چاند نے جب ستاروں کو آواز دی
شہر کی سمت منہ کر کے رویا ہوں میں
گاؤں سے بھی سہاروں کو آواز دی
ایک بهی آدمی کو شکایت نہ ہو
اس لیے میں نے ساروں کو آواز دی
کوئی مشکل میں آیا نہیں دیکھنے
خواہ مخواہ رشتہ داروں کو آواز دی
ایک دو تین کا دُکھ نہیں ہے میاں
میں نے ہر دن ہزاروں کو آواز دی
جاوید مہدی
No comments:
Post a Comment