کس سے رونا روئے کوئی اپنے ٹوٹے خوابوں کا
کب تک زندہ رہ لے کوئی بوجھ اٹھائے وعدوں کا
کل کی فکر مسلط سب پر کل جانے کیا ہو جائے
سر پر بوجھ لیے پھرتے ہو کیوں کل کے اندازوں کا
سہنے والے لوگ بہت ہیں کہنے والا کوئی نہیں
دیکھو کیسے کال پڑا ہے بستی میں آوازوں کا
فیاضی کیا خوب دکھائی ہے صیاد نے کیا کہنے
کاٹے بال و پر پنچھی کے حکم دیا پروازوں کا
مست نظر ساقی کی ہم پر بادل برکھا سب کچھ ہے
پھر ٹوٹے گا آج بھرم لو اپنے سبھی ارادوں کا
شامیں سرد ہوئیں ہیں پھر سے درد پرانے جاگیں گے
لوٹ آیا ہے پھر سے موسم بھولی بسری یادوں کا
دنیا داری کیسے گزری یہ بھی تو پوچھے گا وہ ندیم
حشر میں خالی کب پوچھے گا روزے اور نمازوں کا
ندیم اعجاز
No comments:
Post a Comment