Tuesday 31 August 2021

بات کچھ بھی نہ تھی کیوں خفا ہو گیا

 بات کچھ بھی نہ تھی کیوں خفا ہو گیا

جو تھا اپنا مِرا، غیر سا ہو گیا

دھوپ شدت کی تھی چل پڑا راہ میں

ماں کا آنچل مِرا آسرا ہو گیا

مجھ کو موجِ بلا سے کوئی ڈر نہیں

جب سہارہ مِرا ناخدا ہو گیا

اب تو آنکھوں سے آنسو بھی بہتے نہیں

ظلم جب ان کا حد سے سوا ہو گیا

دل میں اصغر کے خوشیوں کی برسات تھی

ہنستے ہنستے وہ کیوں غمزدہ ہو گیا


اصغر شمیم

No comments:

Post a Comment