بڑے عجیب مناظر نظر سے گزرے ہیں
جب اہلِ ہوش تِری رہگزر سے گزرے ہیں
مسافرانِ رہِ زیست کا شمار کہاں
نہ جانے قافلے کتنے ادھر سے گزرے ہیں
تِری تلاش میں دنیا کو چھان ڈالا ہے
تِری تلاش میں ہر رہگزر سے گزرے ہیں
میں جانتا ہوں وہی دل کو دل بنا دیں گے
مصیبتوں کے جو طوفان سر سے گزرے ہیں
یہ کہہ رہے تھے فرشتوں سے میکدے والے
ابھی جناب منور ادھر سے گزرے ہیں
منور لکھنوی
منشی بشیشور پرشاد
No comments:
Post a Comment