Sunday, 29 August 2021

تیری مثال آنکھوں میں تمثیل ہو گئی

 تیری مثال آنکھوں میں تمثیل ہو گئی

دھڑکن ہزار رنگوں میں تبدیل ہو گئی

تیری نظر کی چھاؤں تو بادل سے کم نہ تھی

پھیلی مِری زمین پہ میں جھیل ہو گئی

کیسی بدن کی قربتیں اور کیسی چاہِ وصل

جب روح تیری روح میں تحلیل ہو گئی

چوما جو اس نے ہاتھ تو محسوس یوں ہوا

تقدیرِ زندگی تِری تکمیل ہو گئی

آنکھوں سے ایک آنسو ہتھیلی پہ آ گرا

تیرہ شبی میں کافی یہ قندیل ہو گئی

نوکِ قلم پہ آخری قطرہ لہو کا تھا

ٹپکا تو میری ذات کی تشکیل ہو گئی

سب کی نظر میں آج نہایت شریف ہوں

حد سے زیادہ میری جو تذلیل ہو گئی

گھر میرا مِرے بچوں کی پہچان بن گیا

ہر رِیت اور رسم ہی تبدیل ہو گئی


تسنیم حسن

No comments:

Post a Comment