تیری مثال آنکھوں میں تمثیل ہو گئی
دھڑکن ہزار رنگوں میں تبدیل ہو گئی
تیری نظر کی چھاؤں تو بادل سے کم نہ تھی
پھیلی مِری زمین پہ میں جھیل ہو گئی
کیسی بدن کی قربتیں اور کیسی چاہِ وصل
جب روح تیری روح میں تحلیل ہو گئی
چوما جو اس نے ہاتھ تو محسوس یوں ہوا
تقدیرِ زندگی تِری تکمیل ہو گئی
آنکھوں سے ایک آنسو ہتھیلی پہ آ گرا
تیرہ شبی میں کافی یہ قندیل ہو گئی
نوکِ قلم پہ آخری قطرہ لہو کا تھا
ٹپکا تو میری ذات کی تشکیل ہو گئی
سب کی نظر میں آج نہایت شریف ہوں
حد سے زیادہ میری جو تذلیل ہو گئی
گھر میرا مِرے بچوں کی پہچان بن گیا
ہر رِیت اور رسم ہی تبدیل ہو گئی
تسنیم حسن
No comments:
Post a Comment