Tuesday 31 August 2021

حروف ابھرے ہوئے ہیں اداس چہروں پر

 حروف ابھرے ہوئے ہیں اُداس چہروں پر

ہے کس کتاب کا یہ اقتباس چہروں پر

عجیب قسم کا موسم ادھر سے گزرا ہے

ہر ایک سمت برستی ہے یاس چہروں پر

انہیں غموں کو چھپانے کا ہے سلیقہ جو

ہنسی سجائے ہوئے ہیں اُداس چہروں پر

نہ جانے کیسی وبا آئی ہے زمانے میں

پہننا پڑتا ہے اب تو لباس چہروں پر

ولاء ثمر ہے مِرے دل کی کاوشوں کا یہی

سکون لاتی ہوں میں بدحواس چہروں پر


ولاء جمال العسیلی

No comments:

Post a Comment