اے دوست دل حیات سے محوِ نبرد ہے
مت یہ گمان کر کہ مِرا خون سرد ہے
میں ہوں تلاشِ منزلِ ہستی کو گامزن
چہرے پہ میرے دیکھ لے صدیوں کی گرد ہے
اس کو بھی میری حالتِ دل کی ہے کچھ خبر
معمول سے زیادہ خزاں اب کے زرد ہے
تُو نے بس اک غبار کو منزل سمجھ لیا
اک دشتِ بے کراں پسِ دیوارِ گرد ہے
گزرے ہیں جس کے قیس اور فرہاد نامور
طاہر اسی قبیلۂ وحشی کا فرد ہے
طاہر گل
No comments:
Post a Comment