Sunday 29 August 2021

اے دوست دل حیات سے محو نبرد ہے

 اے دوست دل حیات سے محوِ نبرد ہے

مت یہ گمان کر کہ مِرا خون سرد ہے

میں ہوں تلاشِ منزلِ ہستی کو گامزن

چہرے پہ میرے دیکھ لے صدیوں کی گرد ہے

اس کو بھی میری حالتِ دل کی ہے کچھ خبر

معمول سے زیادہ خزاں اب کے زرد ہے

تُو نے بس اک غبار کو منزل سمجھ لیا

اک دشتِ بے کراں پسِ دیوارِ گرد ہے

گزرے ہیں جس کے قیس اور فرہاد نامور

طاہر اسی قبیلۂ وحشی کا فرد ہے


طاہر گل

No comments:

Post a Comment