احساس کے جنگل میں خوشبو کا مسافر ہوں
غالب کی حویلی کا خوش رنگ میں طائر ہوں
غزلوں میں تِرا چرچہ کرتا ہوں سرِ محفل
خود ہوتا ہوں میں رسوا مجبور ہوں شاعر ہوں
درویش سکونت کے خانے میں کرے کیا درج
درپیش رہی ہجرت،۔ ہر لمحہ مہاجر ہوں
امید مِری منزل،۔ آنسو ہیں مِرے پانی
اک درد کی روٹی ہے کوئے عشق کا زائر ہوں
اس قلبِ حزیں کا بس اک جرم محبت ہے
جو چاہو سزا دینا موجود ہوں حاضر ہوں
آوار گی، تنہائی، بے گانگی، رسوائی
میں عشق ہوں حلیے سے عاشق کے ہی ظاہر ہوں
مسرور یہی میری پہچاں ہے زمانے میں
پھولوں کی تجارت ہے خوشبو کا میں تاجر ہوں
مسرور نظامی
No comments:
Post a Comment