دنیا پہ مِرے یار بھروسہ نہ کیا کر
دھوکا یہ تجھے دے گی سدا اپنا بنا کر
آواز تو سچائی کی زندہ ہے ابھی تک
کیا مل گیا منصور کو سُولی پہ چڑھا کر
جب وقت نے خواہش کے نقابوں کو اٹھایا
خوش فہمی مِری بیٹھ گئی سر کو جُھکا کر
غم تیرے ہیں دریا تو کرم اس کا سمندر
اے بندۂ ناچیز! قناعت کو روا کر
جذبات کے شعلوں کو بھڑکنے سے نہ روکو
نقصان اٹھاؤ گے حقیقت کو دبا کر
ہر درد تِرا ہو گا مِری ذات سے منسوب
اک پَل کے لیے دیکھ معید اپنا بنا کر
جہانگیر معید
No comments:
Post a Comment