Sunday, 29 August 2021

پھر تقاضا ہے کہ تجدید وفا ہو جائے

پھر تقاضا ہے کہ تجدیدِ وفا ہو جائے

خونِ دل نذر کرو فرض ادا ہو جائے

ہم ہیں سرشارِ محبت نہ شکایت نہ گِلہ

آپ کو عذر ہے تو عذرِ جفا ہو جائے

تشنہ لب کوئی نہ رہ جائے تِری محفل میں

جشن ہے آج تو رِندوں کا بھلا ہو جائے

تیرا مے خانہ سلامت رہے، آباد رہے

ساقیا! ہم کو بھی اک جام عطا ہو جائے

سُست گامی سے نہیں طبعِ رواں کو نسبت

جادۂ شوق پہ آئے تو ہوا ہو جائے

یوں تڑپ اے دلِ بیتاب کہ دھڑکن سے تِری

برق رفتار زمانے کی فضا ہو جائے

ظالمو! سوچ لو انجامِ ستم کیا ہو گا

آج کا دن ہی اگر روزِ جزا ہو جائے

اہل دل کیف محبت ہے اسی کے دم سے

دردِ دل اور سوا اور سوا ہو جائے

مے کشو آؤ چلو شیخ و برہمن سے ملیں

رات کا پچھلا پہر صرف دعا ہو جائے

صبح ہو جائے تو منزل کی طرف تیز قدم

اس قدر تیز کہ شل بانگِ درا ہو جائے

راہ میں دَیر و حرم آئیں تو سجدہ کر لو

شاید اس طرح غریبوں کا خدا ہو جائے


مسعود اختر جمال

No comments:

Post a Comment