دل یوں سحر کے واسطے مت بے قرار کر
ظلمت کی شب گزرنے کو ہے اعتبار کر
سودا ہے سر پہ کیسے میں روکوں زبان کو
جو جی میں آئے وہ ہی روش اختیار کر
قاتل کو میری لاش پہ جو چارہ گر کہے
اس کو بھی میرے قتل میں شامل شمار کر
محشر تو کر چکے ہیں بپا اہلِ اقتدار
تُو بیٹھ کے فلک پہ یونہی انتظار کر
دھرتی کی الفتوں میں کروں اور کیا بتا
دے تو رہا ہوں جان میں صدقے میں وار کر
مت خوف کھا ندیم تُو جابر کے جبر سے
کر جبر پر مزاحمت، اور بار بار کر
ندیم اعجاز
No comments:
Post a Comment