خطاب کیسے کروں تم سے ہر کسی کی طرح
میں دشمنی بھی کروں گا تو دوستی کی طرح
میں کس طرح سے گزاروں گا زندگی تنہا
تِرے بغیر یہ لمحہ ہے اک صدی کی طرح
ہمارے گھر میں تو تھوڑا سا ہی اجالا ہے
تبھی تو روشنی لگتی ہے تیرگی کی طرح
یہ ہم نے مانا کہ اولاد سب ہیں آدم کی
رویہ بھی تو ہو ہم سب کا آدمی کی طرح
یہ زندگی کا سفر پُر فریب ہے کتنا
شناسا لوگ بھی ملتے ہیں اجنبی کی طرح
رہِ وفا میں فقط آپ ہی نہ تھے تنہا
نِبھائی دوستی ہم نے بھی بندگی کی طرح
ذرا شعور کی چلمن سے جھانک کر دیکھو
اُداسیاں بھی نظر آئیں گی خوشی کی طرح
یہ عشق کا ہے اثر یا ہے میرا و گمان؟
تمہاری باتیں بھی لگتی ہیں شاعری کی طرح
میں زندگی کے قرینے سے خوب واقف ہوں
اسی لیے تو مجھے غم لگے خوشی کی طرح
جو زخم مجھ کو ملے ہیں کسی سے اے قیصر
بُھلاؤں کیسے انہیں؟ ہیں وہ زندگی کی طرح
امتیاز قیصر
No comments:
Post a Comment