سنا ہے میرے عشق سے وہ بے خبر نہیں رہا
خمار تھا جنون کا جو بے اثر نہیں رہا
نہ مجھ کو چاہ عشق کی نہ اس کو آس وصل کی
ہے میرے ساتھ ساتھ پر وہ ہمسفر نہیں رہا
مجھے بلانے آئیں، در وہ کھٹکھٹانے آئی تھیں
پلٹ گئیں صدائیں پھر کہ اب وہ در نہیں رہا
یہ بادباں کی خامشی یہ کشتیوں کی سسکیاں
بتا رہی ہیں ریت کو؛ کوئی بھنور نہیں رہا
خدا بنا ہے اور خودی کو پوجتا رہا ہے خود
بنا کے بُت اناؤں کے وہ کوزہ گر نہیں رہا
قیامتیں اُبھر رہی ہیں ہر لکیرِ دست سے
حنا کا رنگ اب نسیم ہاتھ پر نہیں رہا
نسیم بیگم
No comments:
Post a Comment