Tuesday 31 August 2021

سنا ہے میرے عشق سے وہ بے خبر نہیں رہا

 سنا ہے میرے عشق سے وہ بے خبر نہیں رہا

خمار تھا جنون کا جو بے اثر نہیں رہا

نہ مجھ کو چاہ عشق کی نہ اس کو آس وصل کی

ہے میرے ساتھ ساتھ پر وہ ہمسفر نہیں رہا

مجھے بلانے آئیں، در وہ کھٹکھٹانے آئی تھیں

پلٹ گئیں صدائیں پھر کہ اب وہ در نہیں رہا

یہ بادباں کی خامشی یہ کشتیوں کی سسکیاں

بتا رہی ہیں ریت کو؛ کوئی بھنور نہیں رہا

خدا بنا ہے اور خودی کو پوجتا رہا ہے خود

بنا کے بُت اناؤں کے وہ کوزہ گر نہیں رہا

قیامتیں اُبھر رہی ہیں ہر لکیرِ دست سے

حنا کا رنگ اب نسیم ہاتھ پر نہیں رہا


نسیم بیگم

No comments:

Post a Comment