جرمِ ناکردہ کی ہم تعزیر سے ڈرتے رہے
کون کہتا ہے کہ ہم تقدیر سے ڈرتے رہے
اپنی ہی تحریر سے تقریر سے ڈرتے رہے
ہمسفر سے، ہم کبھی رہگیر سے ڈرتے رہے
بے بسی کا ایک عالم چار سُو چھایا رہا
منقسم ہوتی ہوئی جاگیر سے ڈرتے رہے
رات کی تاریکیوں سے ہم لڑے ڈٹ کر یہاں
روشنی کی ہم مگر تاخیر سے ڈرتے رہے
زخم گہرے ہو گئے، یہ درد بڑھتا ہی رہا
ہم طبیبوں کی ہر اک تدبیر سے ڈرتے رہے
بے وفائی کا ہمیں معلوم تھا انجام بھی
خانۂ دل کی ہر اک تحریر سے ڈرتے رہے
عبدالجبار
No comments:
Post a Comment