Friday 27 August 2021

راکھ یادوں کی اڑانے میں بہت وقت لگا

 راکھ یادوں کی اڑانے میں بہت وقت لگا

یار! اس بار سنبھلنے میں بہت وقت لگا

میں نے فطرت کے مظاہر میں تجھے ڈھونڈا ہے

یا خدا! تجھ کو سمجھنے میں بہت وقت لگا

دستکیں لوٹ کے توڑیں گی سکوتِ جاں کو

در کو دیوار بنانے میں بہت وقت لگا

جس کو رونے میں ذرا دیر نہیں لگتی تھی

آج اس شخص کو ہنسنے میں بہت وقت لگا

راستے دونوں ہی جاتے تھے مِری منزل کو

راستہ مجھ کو بدلنے میں بہت وقت لگا

جس قدر تجھ پہ بھروسہ تھا ہے اتنی حیرت

ایک آنسو کو بھی رونے میں بہت وقت لگا

لمس تیرا تھا مِرے جسم کے اندر پنہاں

اس لیے خاک بکھرنے میں بہت وقت لگا


زہرا شاہ

No comments:

Post a Comment