جامن جو سب پر اپنا رنگ چڑھا دے
تم کو شاید یقین نہ آئے
میں جب اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر تکتا ہوں
تو سامنے جو اونچا سا درخت نظر آتا ہے
وہ جامن کا ہے
جس سے میری دوستی ہے اور جو میری ہر کہانی میں ہے
یاد ہے تم کو
تم نے بھی مجھ سے یہ ہی پوچھا تھا کہ
تمہاری اتنی کہانیوں میں جامن کا درخت ہر جگہ کیوں آ جاتا ہے؟
تو سنو
یہ جامن کا درخت میرا آئیڈیل ہے
اب بھی جیسے
وہ مجھ سے باتیں کر رہا ہو
ہاں میرا محبوب ہونے کے لیے بھی تمہیں جامن کے درخت جیسا بننا ہو گا
اپنی فکر کے ذاتی پکے رنگوں والا
جو خود دھوپ میں رہے
اور لوگوں کو چھاؤں دینے والا
اور ہر موسم میں مسکرانے والا
کوئی بے دھیانی سے بھی پاس سے گزر جائے تو ٹپ سے اس کے پاس بیٹھ جائے
اور
اس سے ایسی باتیں کہہ دے جس سے وہ بھی جامنی رنگ میں رنگ جائے
جو کبھی اترے ہی نا
بس سکون اور طاقت کی علامت
یارم عمر گزر گئی
نہیں ملا کوئی بھی جو ساری باتوں پر پورا آنے والا ہوتا
ہاں میرے اس سرد اور خشک رویے سے بہت سے لوگ دلبرداشتہ ہوئے
جو جانے انجانے میں مجھ سے محبت کرتے تھے
جن میں کچھ مجھ سے کہہ ہی نا سکے
اور جو کہہ بھی پائے تو انہیں بھی کیا ہی ملا
میرا معیارِ محبت مجھ سے بھی کہیں اونچا تھا
میرا محبوب مجھ سے ملنے کے لیے بھی اپنے تخت سے زمین پر نہیں اترتا تھا
اور سچی بات مجھے کوئی غم بھی نہیں تھا
اور نا ہی قلق کہ مجھے ہی آخر کیوں نہیں ملتا
کہ میں جانتا تھا کہ اس کی وجہ بھی میں ہی ہوں لیکن پیچھے ہٹنا سیکھا نہیں تھا
یارم کہہ دیا جو جی میں آیا اور صحیح لگا
میرا جامن نہیں ملا مجھے کبھی بھی
پر میرا یقین مجھے کہتا تھا
کہ ایک دن کوئی کہیں ہو گا جس کو میں جامن کہہ ہی لوں گا
اور اب آج جو تم نے جامن کہا تو میں جیسے جی اٹھا
میرا وہ خواب جو میں نے سوتے جاگتے دیکھا تھا
سچ ہو گیا
کیسے بتاؤں کہ میرا جامن
میرا انتظار، میرا صبر ہے، میرے اپنے ہونے کا ثبوت ہے
جس کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا
وہ واقعی میری اندر باہر سب رازوں سے واقف ہے
اسے سب پتہ ہے کہ میرے جسم کی ہر پیاس اسے ہی کشید کرتی ہے
اور میرے دل پر لکھا ہر کتبہ اسی کی کہانی کہتا ہے
اس میں اور مجھ میں کبھی حجاب نہیں رہا
مجھے وہ کبھی اپنے سے الگ دکھا ہی نہیں
میں اپنے جامن کو جیسے اس کی تخلیق سے پہلے سے جانتا ہوں
میرے ارد گرد والے خاموشی کی زبان میں کہتے ہیں
تم کو جامن مل گیا ہے
پکے رنگ والا
جس پر کوئی رنگ نہیں چڑھتا اور
جو سب پر اپنا رنگ چڑھا دیتا ہے
صفدر ہمدانی
No comments:
Post a Comment