Friday 27 August 2021

جو رنگ زیست کے خاکوں میں بھر رہا ہو گا

 جو رنگ زیست کے خاکوں میں بھر رہا ہو گا

وہ شخص روز نئی موت مر رہا ہو گا

تِری نگاہ میں جو معتبر رہا ہو گا

نظر بچا کے وہی وار کر رہا ہو گا

لگی ہے آگ دھواں اٹھ رہا ہے بستی سے

جو جل رہا ہے وہ میرا ہی گھر رہا ہو گا

پیامبر جسے اپنا بنا کے بھیجا ہے

مِرے خلاف وہی کان بھر رہا ہو گا

قلم ہوا وہی سر جس میں انکساری تھی

جو بچ گیا ہے وہ مغرور سر رہا ہو گا

بتا رہے ہیں وہ اس کے کٹے ہوئے بازو

وہ شخص سب سے بڑا با ہنر رہا ہو گا

کسی نے بزم سخن میں زباں نہیں کھولی

سخنورو! تمہیں پریتا کا ڈر رہا ہو گا


پریتا واجپائی

No comments:

Post a Comment