جو رنگ زیست کے خاکوں میں بھر رہا ہو گا
وہ شخص روز نئی موت مر رہا ہو گا
تِری نگاہ میں جو معتبر رہا ہو گا
نظر بچا کے وہی وار کر رہا ہو گا
لگی ہے آگ دھواں اٹھ رہا ہے بستی سے
جو جل رہا ہے وہ میرا ہی گھر رہا ہو گا
پیامبر جسے اپنا بنا کے بھیجا ہے
مِرے خلاف وہی کان بھر رہا ہو گا
قلم ہوا وہی سر جس میں انکساری تھی
جو بچ گیا ہے وہ مغرور سر رہا ہو گا
بتا رہے ہیں وہ اس کے کٹے ہوئے بازو
وہ شخص سب سے بڑا با ہنر رہا ہو گا
کسی نے بزم سخن میں زباں نہیں کھولی
سخنورو! تمہیں پریتا کا ڈر رہا ہو گا
پریتا واجپائی
No comments:
Post a Comment