Friday, 27 August 2021

غم ہے کھانے کو اشک پینے کو

غم ہے کھانے کو اشک پینے کو

یہ بھی کم کیا ہے اپنے جینے کو

دل میں ہرگز نہ رکھیے کینے کو

اور بھی غم بہت ہیں جینے کو

اپنے دل میں چھپائے پھرتا ہوں

میں تِرے درد کے دفینے کو

جس کو کہتی ہے اشکِ غم دنیا

کوئی دیکھے تو اس نگینے کو

موج در موج آ رہی ہے صدا

ڈوب جانے دو اب سفینے کو

لاگ میں ہے لگاؤ کا انداز

کون سمجھے گا اس قرینے کو

سوچتا ہوں کہ کس سے دوں تشبیہ

اس جبیں پر حسیں پسینے کو

عشق نے کر دیا ہے مجھ کو نہال

دیکھیے درد کے خزینے کو

شکوہ بر حق، نظیر یہ سوچو

ٹھیس پہنچے گی آبگینے کو


نظیر رامپوری

سید نظیر علی

No comments:

Post a Comment