Friday 27 August 2021

گلشن مرا ویران ہے

  گُلشن مِرا ویران ہے

ہر اک شجر بے جان ہے

پنچھی اڑانیں بھر چکے

آنے لگا طوفان ہے

سایہ ہی اپنے ساتھ ہے

ہر اک ڈگر ویران ہے

بے نام ہے میری طرح

قصہ بلا عنوان ہے

ظالم میرے حالات سے

تُو ہی ذرا انجان ہے

جُھوٹے بہانے مت بنا

جُھوٹا تِرا پیمان ہے

تجھ کو بُھلا تو دوں

مگر کیا بُھولنا آسان ہے

دل کی تباہی دیکھ کر

یہ عقل بھی حیران ہے

ملنا ہے اب تو موت سے

باقی یہی ارمان ہے


زرقا مفتی

No comments:

Post a Comment