دستار سروں سے مہنگی ہے
کیا جان انا سے سستی ہے
یہ سوچ رہے دیوانے ہیں
بے مول ہیں ہم، اس دنیا میں
کیا عمر گنوانے آئے تھے
یہ پوچھ رہے دل والے ہیں
اب بادِ صبا چلتی ہے کیا
کیا پھول میں خوشبو ہوتی ہے
کیا پنچھی چمن میں گاتے ہیں
کیا چاند فلک پر سجتا ہے
کیا تارے بھی جھلمل کرتے ہیں
کیوں رنگ نہیں ہیں خوابوں میں
یہ کون سی دنیا ہے یا رب
دل خالی ہیں ارمانوں سے
آزاد محبت وعدے سے
محتاج ہیں سب ہی پیسے کے
اب قدر نہیں ہے جذبوں کی
اب عشق ہے سب کو دولت سے
کیوں آس لگائے بیٹھے ہو
اب نوچ لو سپنے آنکھوں سے
آزار جو دل نے پالے ہیں
ہونٹوں پہ لگے اب تالے ہیں
ویران سی اپنی آنکھوں میں
کیوں ناچ رہی ہے وحشت سی
آسان ہے مرنا جینے سے
اے موجِ فنا اب لے لے جاں
زرقا مفتی
No comments:
Post a Comment