Friday 27 August 2021

دستار سروں سے مہنگی ہے

 دستار سروں سے مہنگی ہے

کیا جان انا سے سستی ہے

یہ سوچ رہے دیوانے ہیں

بے مول ہیں ہم، اس دنیا میں

کیا عمر گنوانے آئے تھے

یہ پوچھ رہے دل والے ہیں

اب بادِ صبا چلتی ہے کیا

کیا پھول میں خوشبو ہوتی ہے

کیا پنچھی چمن میں گاتے ہیں

کیا چاند فلک پر سجتا ہے

کیا تارے بھی جھلمل کرتے ہیں

کیوں رنگ نہیں ہیں خوابوں میں

یہ کون سی دنیا ہے یا رب

دل خالی ہیں ارمانوں سے

آزاد محبت وعدے سے

محتاج ہیں سب ہی پیسے کے

اب قدر نہیں ہے جذبوں کی

اب عشق ہے سب کو دولت سے

کیوں آس لگائے بیٹھے ہو

اب نوچ لو سپنے آنکھوں سے

آزار جو دل نے پالے ہیں

ہونٹوں پہ لگے اب تالے ہیں

ویران سی اپنی آنکھوں میں

کیوں ناچ رہی ہے وحشت سی

آسان ہے مرنا جینے سے

اے موجِ فنا اب لے لے جاں


زرقا مفتی

No comments:

Post a Comment