اتنا سننے میں آیا کہ اس گاؤں میں چند بادل گئے
گل گئیں کھیتیاں اور بچوں کے حصے کے چاول گئے
کب خزاں آ گئی، برگ و گل کے رنگا رنگ آنچل گئے
کتنے نرمل گئے، کتنے کومل گئے، اور مکمل گئے
ایک آسیب تھا، اس حویلی میں کوئی نہ تھا دوسرا
قہقہے گونجنے لگ گئے جب وہاں چند پاگل گئے
شہر پر ان دنوں ایسی بارش کی کوئی ضرورت نہ تھی
جس سے غلے کھڑی فصل کی بالیوں میں پڑے گل گئے
کتنی صدیوں سے دل کے مکانوں میں تھی بے بہا تیرگی
کس کے پاؤں پڑے کہ ہزاروں دیے خود بخود جل گئے
سدرۃ المنتہیٰ تک فقط تاب تھی اس سے آگے نہ تھی
اس سے آگے فرشتوں کے پر قیمتی تھے مگر جل گئے
کیا ضرورت تھی جو لے گئی دشت میں قیس کو اولیں
اور پھر صف بہ صف سارے عشاق بھی جانبِ تھل گئے
خاک کس نے تمہاری رعونت پہ ڈالی تکبر گرو
کس نے دُھتکارا تم کو بس اک آن میں سارے کس بل گئے
کس نے دنیا کے طاقتوروں کے دماغوں سے نوچے نشے
کون پیشانیوں پہ سیاہی کی لو آن کر مَل گئے
غفلتوں میں پڑوں پر اچانک محمدﷺ کی نسبت کُھلی
لب سے صلِ علیٰ جب کہا؛ سارے خطرات پھر ٹل گئے
حنا عنبرین
No comments:
Post a Comment