جانے کیا کیا در گزر کرنا پڑا
جب ہمیں تقسیم گھر کرنا پڑا
دھوپ کی اندھی طلب تھی سو ہمیں
آنگنوں کو بے شجر کرنا پڑا
کیا سنہری دور اپنی عمر کا
کس خرابے میں بسر کرنا پڑا
اک جنوں آثار لمحے کے سبب
وحشتوں کو ہم سفر کرنا پڑا
ایک نا معلوم منزل کے لیے
کتنی سمتوں میں سفر کرنا پڑا
معرکہ یہ ذات کا اے امتیاز
رائیگاں ہو کر ہی سر کرنا پڑا
احمد امتیاز
No comments:
Post a Comment