Friday 27 August 2021

جانے کیا کیا درگزر کرنا پڑا

 جانے کیا کیا در گزر کرنا پڑا

جب ہمیں تقسیم گھر کرنا پڑا

دھوپ کی اندھی طلب تھی سو ہمیں

آنگنوں کو بے شجر کرنا پڑا

کیا سنہری دور اپنی عمر کا

کس خرابے میں بسر کرنا پڑا

اک جنوں آثار لمحے کے سبب

وحشتوں کو ہم سفر کرنا پڑا

ایک نا معلوم منزل کے لیے

کتنی سمتوں میں سفر کرنا پڑا

معرکہ یہ ذات کا اے امتیاز

رائیگاں ہو کر ہی سر کرنا پڑا


احمد امتیاز

No comments:

Post a Comment