Friday 27 August 2021

بے خدا ہونے کے ڈر میں بے سبب روتا رہا

 بے خدا ہونے کے ڈر میں بے سبب روتا رہا

دل کے چوتھے آسماں پر کون شب روتا رہا

کیا عجب آواز تھی سوتے شکاری جاگ اٹھے

پر وہ اک گھائل پرندہ جاں بہ لب روتا رہا

جاتے جاتے پھر دسمبر نے کہا کچھ مانگ لے

خالی آنکھوں سے مگر دل بے طلب روتا رہا

میں نے پھر اپریل کے ہاتھوں سے دل کو چھو لیا

اور دل سایوں سے لپٹا ساری شب روتا رہا

اس نے میرے نام سورج چاند تارے لکھ دیا

میرا دل مٹی پہ رکھ اپنے لب روتا رہا


عذرا پروین

No comments:

Post a Comment