بے خدا ہونے کے ڈر میں بے سبب روتا رہا
دل کے چوتھے آسماں پر کون شب روتا رہا
کیا عجب آواز تھی سوتے شکاری جاگ اٹھے
پر وہ اک گھائل پرندہ جاں بہ لب روتا رہا
جاتے جاتے پھر دسمبر نے کہا کچھ مانگ لے
خالی آنکھوں سے مگر دل بے طلب روتا رہا
میں نے پھر اپریل کے ہاتھوں سے دل کو چھو لیا
اور دل سایوں سے لپٹا ساری شب روتا رہا
اس نے میرے نام سورج چاند تارے لکھ دیا
میرا دل مٹی پہ رکھ اپنے لب روتا رہا
عذرا پروین
No comments:
Post a Comment