Saturday, 28 August 2021

یادیں عہد ماضی کے جھروکوں سے چلی آتی ہیں

 یادیں


عہدِ ماضی کے جھروکوں سے چلی آتی ہیں

مُسکراتی ہوئی یادیں میری

گُنگناتی ہوئی یادیں میری

اور محسوس یہ ہوتا ہے مجھے

جیسے بنجر سی زمیں

قطرۂ ابرِ گہربار سے شاداب بنی

جیسے صحرا میں بھٹکتے ہوئے اک راہی کو

چشمۂ آب ملا

جیسے پامال تمنائیں ترشح پا کر

پھر تر و تازہ ہوئیں

جیسے ترسیدہ کلی

مسکراہٹ سے دلآویز بنے

ایک لمحہ کے لیے

سینۂ سوزاں مِرا

شبنمی یاد سے مُسکاتا ہے

ایک لمحہ کے لیے

کپکپاتی ہوئی سہمی ہوئی ہستی میں

انہیں یادوں کی حلاوت میں سما جاتی ہے

یہی یادیں تو مِری زیست کا سرمایہ ہیں

مُسکراتی ہوئی یادیں میری

گُنگناتی ہوئی یادیں میری


زرینہ ثانی

No comments:

Post a Comment