ایک گلی میں مُڑتے ہی اک شام سہانی پڑتی ہے
اس کے گھر کے رستے میں بس یہی نشانی پڑتی ہے
پہلے پہل تو سب کچھ اپنے دل میں چھپائے رکھتی ہوں
آخر اس کو دل کی ساری بات بتانی پڑتی ہے
جذبوں پر جب برف جمے تو جینا مشکل ہوتا ہے
دل کے آتشدان میں تھوڑی آگ جلانی پڑتی ہے
کبھی کبھی تو سچ مچ اس سے جھگڑا کرنا پڑتا ہے
اکثر ایسا ہو جاتا ہے، بات نبھانی پڑتی ہے
وقت ملے تو تم کو بتاؤں کیا کچھ مجھ پر بیتا ہے
میرے اس کے ملن میں پوری رام کہانی پڑتی ہے
یہ بھی سچ ہے آئینے ہی ہم کو سنوارا کرتے ہیں
اور کبھی تو آئینے سے آنکھ چرانی پڑتی ہے
میں ماضی کی جانب یوں بھی لَوٹ کے اکثرجاتی ہوں
اس رستے پہ آگے جا کر میری جوانی پڑتی ہے
سیما غزل
No comments:
Post a Comment