Friday, 27 August 2021

گیت ہوں تو گا مجھے غم ہوں گر اٹھا مجھے

 گیت ہوں تو گا مجھے، غم ہوں گر اٹھا مجھے

حاصلِ مُراد ہوں، ایسے مت گنوا مجھے

کل تِری نگاہ میں نُور کا الاؤ تھی

آج مثلِ خاک ہوں، راکھ ہوں، بہا مجھے

عشق تھا طلب تِری، تجھ کو میں عطا ہوئی

اک دعا کے نام پر قید کر لیا مجھے

ڈوب اپنے حال میں، کچھ نہیں ملال میں

دھیان سے ہٹا مجھے، شان سے گِرا مجھے

تیرے ہاتھ کا لِکھا حرفِ ناتمام ہوں

چاہے تو تمام کر، خواہ تُو مِٹا مجھے

حدِ شوق سے پرے، خواب پھیلتا گیا

اس کے پار انت تک اک خلا دِکھا مجھے

عشق لِکھ کے یار نے، میرے نم خمیر پر

نقش نقش پڑھ لِیا، اور دھر دیا مجھے

حسن جس کے پیر سے گرد بن لِپٹ رہا

ایک زرد شب مِرے دُوار پر مِلا مجھے

میہنہ برس برس گیا، دل سے خار و خس گیا

عشق سے بھی رس گیا، دے نہ اب صدا مجھے

روشنی سراب ہے، رنگ کُل عذاب ہے

جی بہت خراب ہے، شعر مت سنا مجھے

تُو مِرا خدا نہ تھا، کوئی دیوتا نہ تھا

جانے تیرا حرف حرف حکم کیوں لگا مجھے

جب حقیقتیں کُھلیں، یاد کچھ رہا نہیں

اے سنہری چشم! تُو کون ہے؟ بتا مجھے

تُو نہیں رہا مگر، ریگزارِ دل پہ کیوں

دم بَدم مِلا کیے، تیرے نقشِ پا مجھے


سیماب ظفر

No comments:

Post a Comment