زندگی تو فانی ہے
آج مرے کل دوسرا دن
کوئی روٹھ جائے
تو منا لینا چاہیۓ
چوکھٹ پر آئے اپنے کو
گلے لگا لینا چاہیۓ
زندہ تو بے ضمیر بھی رہتے ہیں
ضمیر کے ساتھ جیتے ہیں
کمال کرتے ہیں
دل میں گنجائش رکھنا بھی
ہر کسی کے بس کی بات نہیں
حساب کتاب رکھ کر
کدورت پال لینے سے
کیا حاصل
سمجھتے ہیں طویل مسافت ہے
کل کس نے دیکھی ہے
یہ نہیں جانتے پل کی خبر نہیں
سینے میں دل کی جگہ
پتھر فٹ کئے بیٹھے ہیں
اس دھڑکتے دل کے ساتھ
کوئی احساس کچلتا ہے
کمال کرتا ہے
کیا خبر زندگی کتنی ہے
پھر بھی منہ موڑ کر جیتے ہیں
ستم کرتے ہیں
کوکب جبین
No comments:
Post a Comment