ہم پارہ صفت لوگ ہیں پانی کی طرح ہیں
ڈھلتی ہوئی عمروں میں جوانی کی طرح ہیں
ہم فردا و اِمروز سے آگے کے مسافر
ٹھہرے ہوئے لگتے ہیں روانی کی طرح ہیں
بالوں میں اُترتے ہوئے چاندی کے اُجالے
گردِ مہ و انجم کی نشانی کی طرح ہیں
آنکھوں کے دریچوں میں کئی خواب سجا کر
انجام سے ڈرتے ہیں کہانی کی طرح ہیں
ہم گردشِ دوراں میں وہ غربت زدگاں ہیں
کوئی نہیں لیتا کہ گِرانی کی طرح ہیں
محمد کامران
No comments:
Post a Comment