راہ ناہموار ہو تو منزلوں سے کھیلنا
پتھروں سے بچ کے چلنا آئینوں سے کھیلنا
ساحلوں کی ریت پر دو گام چل کے گر پڑے
گو مقدر میں لکھا تھا ساحلوں سے کھیلنا
زندگی اپنی تو ایسے مشغلوں میں کٹ گئی
روشنی سے دل لگانا، نکہتوں سے کھیلنا
گاہ چلنا، گاہ رکنا اور گھر کو لوٹنا
مشغلہ ہے زندگی بھر فاصلوں سے کھیلنا
ناز ہے انداز ہے، یا کھیلنے کا شوق ہے
اتنی آسانی سے یہ ٹُوٹے دلوں سے کھیلنا
حسین ثاقب
No comments:
Post a Comment