پسِ آئینہ خد و خال میں کوئی اور تھا
کوئی سامنے تھا، خیال میں کوئی اور تھا
جو دنوں کے دشت میں چل رہا تھا وہ میں نہ تھا
جو دھڑکتا تھا مہ و سال میں کوئی اور تھا
کوئی اور تھا مِرے ساتھ دورِ عروج میں
مِرے ساتھ عہد زوال میں کوئی اور تھا
جسے صید کرنا تھا دام میں وہ چلا گیا
وہ جو رہ گیا تِرے جال میں کوئی اور تھا
تھی زمیں رعونتِ رعد و برق سے مضمحل
پسِ ابر و باد جلال میں کوئی اور تھا
ستار سید
No comments:
Post a Comment