نہ ملاقات نہ دیدار کی حسرت کی ہے
میں نے اُس شخص سے پاکیزہ محبت کی ہے
میں نے رُخصت کیا ہے اُس کو کسی غیر کے ساتھ
میں نے ہم عصر عاشقوں سے بغاوت کی ہے
سگا ہے وہ میرا نہ خون کا رشتہ ہے کوئی
بات یہ ساری میرے دوست عقیدت کی ہے
مجال کیا مِری جو تجھ کو خط لِکھوں صاحِب
صاف ظاہر ہے رقیبوں نے شرارت کی ہے
بے سکوں دل دیا لے کے قرار والا دل
تم نے سرکار امانت میں خیانت کی ہے
آصف میؤ
No comments:
Post a Comment