سمجھ سکو تو بتانا کہ وہ کہاں نہیں ہے
اگر سمجھ میں وہ آئے، سمجھ لو ہاں، نہیں ہے
ہے ایک تنگئ امکان، جبر کا عالم
مِرے لیے جو بنا تھا یہ وہ جہاں نہیں ہے
وریدِ جاں سے الجھ کر گِرا ہوں سجدے میں
سنا ہے اس کے سوا کوئی بھی یہاں نہیں ہے
یہی تو دیکھنے نکلا ہوں اپنے اندر سے
زمین اپنی جگہ پر ہے، آسماں نہیں ہے
حصارِ جسم سے آگے پڑاؤ اور بھی ہیں
پر ان کے بعد بھی کیا حدِ لامکاں نہیں ہے
میں کیا کروں کہ یہاں میرا جی نہیں لگتا
کہ شہرِ دل میں بھی ہائے وہ جانِ جاں نہیں ہے
تِرے خیال کے جیسا کوئی سمندر ہے؟
کنارہ کوئی نہیں، کوئی درمیاں نہیں ہے
وہ مسکرا کے مِری جان لے بھی سکتا تھا
وہ شخص مجھ پہ مگر اتنا مہرباں نہیں ہے
طلسمِ ہوشربا ہے یہ کارزارِ خیال
سلگ رہا ہے سبھی کچھ مگر دُھواں نہیں ہے
عابد رضا
No comments:
Post a Comment