شدت تشنہ لبی میں پوچھ مت کیا کیا لگا
جس کو تو قطرہ سمجھتا تھا مجھے دریا لگا
سچ کے ہم کل بھی امیں تھے آج بھی ہم ہیں امیں
آئینوں کو پتھروں سے جنگ کب اچھا لگا
حادٿوں کی زد سے غیروں نے بچایا جب مجھے
گو کہ ہر چہرہ تھا بے گانہ مگر اپنا لگا
پیتے پیتے ہو گیا عادی تِرے غم کی شراب
زندگی ہاتھوں تِرے اب زہر بھی اچھا لگا
زہن و دل میں آ کے اتنا بس گئے ہو تم مِرے
آئینے میں خود کو دیکھا تو تِرا چہرہ لگا
دوستوں کی کچھ کرم فرمائیاں یاد آ گئیں
پیٹھ کے زخموں پہ جب انسان کے ٹانکا لگا
اس لیے کھانے لگے ہیں تشنگی کے ہم فریب
ہر چمکتی ریت میں ہم کو کوئی چشمہ لگا
روشنی پر تبصر و تنقید کے حملے ہوئے
جب بھی جگنو سے ستاروں کو بڑا خطرہ لگا
سر پہ سایا، چاند تارے، چاندنی موجود ہے
آسماں تو میرے آنگن سے بہت چھوٹا لگا
اب زلیخاؤں میں وہ پاکیزگی بھی نہ رہی
مت سرِ بازار میرے حسن کا سودا لگا
درد دل کی تلخیاں دل شاعری میں آ گئیں
جب تِری محفل سے میرے دل کو اک صدما لگا
دل سکندر پوری
No comments:
Post a Comment