Sunday, 22 August 2021

تجھے خبر کہاں کہ دلوں میں جب بال پڑ جائے

تجھے خبر کہاں؟

کہ جو اک شخص

تیری تلاش میں صدیوں سے

پرائی راہوں کی

دُھول چھانٹ رہا تھا

مر گیا کل شب

تجھے خبر کہاں؟

کہ تیرے خوابوں کو جن آنکھوں نے

پال پوس کر جوان کیا تھا

وہیں آنکھیں

ان خوابوں کی لحد پر آج

دیوانہ وار روئے جا رہی ہیں

تجھے خبر کہاں؟

کہ جن راہوں پر

تیرے قدموں نے بھار ڈالا تھا

ہجر کو ادھیڑ ڈالا تھا

وہ راہیں اب کسی اور کو

وہاں سے گُزرنے نہیں دیتیں

تجھے خبر کہاں؟

کہ بہاروں کو اب

بہاروں کے موسم میں

خزاں کا مسئلہ درپیش ہے

ہو سکے تو کسی پُھول کی پتی پہ ہاتھ رکھ

اور ان کو خزاں کے ڈر سے آزادی دے

تجھے خبر کہاں؟

کہ تیری دید کی چاہ میں

جن آنکھوں نے نیندوں سے دُشمنی کی تھی

وہ آنکھیں اب تیرے انتظار میں

جنگل کے کسی ویران سے گوشے میں

اکیلے بیٹھ کر تیرا انتظار کرتی ہیں

تجھے خبر کہاں؟

کہ دلوں میں جب بال پڑ جائے

تو وصالِ یار بھی ہجر ہوتا ہے

اب دو دلوں کو جب بھی جُدائی کا ڈر ہوتا ہے

تو میرے کمرے کی کھڑکی سے

دو آنکھیں روتی نظر آتی ہیں

تجھے خبر کہاں؟

کہ بِن یار کے عیدیں منانے کا دُکھ کیا ہے

ماہِ رمضان کی آخری شب

جب لوگ مِل کر عید کا چاند دیکھتے ہیں

تو اک بوسیدہ سے گھر کی خستہ سی چھت پر

ایک شخص اپنے کھوئے چاند کو تلاشتا رہتا ہے

تجھے خبر کہاں؟

کہ جس شخص کی تحریروں کو تم

اک مُدت سے پڑھتے جا رہے ہو

وہ شخص اپنی ہی محبت کی کہانی کو

مسرّت بھرا انجام دینے سے پہلے

مر گیا ہے کل شب

تجھے خبر کہاں؟

کہ اب خاکی بدن کو خاک میں ملے

اک عرصہ گُزر گیا ہے

لیکن دو مخمور سی آنکھیں ابھی تلک

مٹی کی تہہ سے رستہ بنائے

اک شخص کی حاضری کے انتظار میں ہیں


سلمان بشیر

No comments:

Post a Comment