مرحلہ
میری ہر اک نظر نے سجدہ کیا
رونقِ حسن و جان روئے نگار
پھر بھی جنبش نہ ہو سکی تجھ کو
کتنا مضبوط ہے تِرا کردار
کیا خبر تجھ کو پیار ہو کہ نہ ہو
ہوں تِری ہر خوشی کے ساتھ مگر
تیری فکر و ادا سمجھ نہ سکوں
بر محل جیسے بج سکے نہ گجر
ذہن کی کچھ عمیق راہوں میں
خود کو کھویا ہوا سا پاتا ہوں
جانے کیا ہو گا عشق کا حاصل
جانے کیا ہو گا چاہتوں کا فسوں
دور آفریدی
No comments:
Post a Comment