ہے مکمل مگر ادھورا ہے
زیست کا یہ سفر ادھورا ہے
يہ مکينوں کی مہربانی ہے
سب کو لگتا جو گھر ادھورا ہے
اس کے الفاظ پُرکشش ہوں گے
وہ سخنور مگر ادھورا ہے
جس کی تاثیر چھلکتی جائے
مان لو وہ اثر ادھورا ہے
ہجر کا وصل گر نہیں پورا
پیار کا ہر پہر ادھورا ہے
جس کے سائے تلے سکوں نہ ملے
ایسا ہر اک شجر ادھورا ہے
نئے وعدوں کا بھرم پورا کہاں
سن لے تیرا مَکر ادھورا ہے
نا رسا وہ رہے گا باہر بھی
ہو اِدھر یا اُدھر ادھورا ہے
جس کے پینے سے صبر نا آئے
ضبط کا وہ زہر ادھورا ہے
تُو سمجھتا ہے میں تیری پوری
تیرا یہ بھی اجر ادھورا ہے
لفظ آمد کے ہوں اگر الہام
پھر قلم کا جبر ادھورا ہے
اس کا ہر اک عذر مکمل ہے
کہہ رہے سب، مگر ادھورا ہے
کون رلتا رہا ہے مجھ میں جو
آج بھی دربدر ادھورا ہے
نیا الزام تیرا خوب، مگر
یہ نہیں کارگر ادھورا ہے
میرے شعروں کا جو وزن تولیں
ان کا اپنا بحر ادھورا ہے
لوگ دعووں میں ہیں کہاں پورے
کیوں شہر کا شہر ادھورا ہے
خوب سيرت اگر نہیں کوئی
حسن اس کا بھی پھر ادھورا ہے
پھر تو سب کچھ ہی رائيگاں ہوا
سرخرو گر فکر ادھورا ہے
لاج مولا میری تُو رکھ لینا
میرا ہر اک ہنر ادھورا ہے
سوچا سيما جو پا لیا میں نے
کتنا یہ بھی فخر ادھورا ہے
سیما عباسی
No comments:
Post a Comment