ترس کھایا ہوا اغیار کا سنبھالا ہوا
دربدر پھرتا ہوں جنت سے میں نکالا ہوا
اسی کی مہر سے جیون میں ہے اندھیر پڑا
جس کے آنے سے میری زیست میں اُجالا ہوا
اپنے بچے کا نام میرے نام پر رکھ کر
وہ سمجھتی ہے بے وفائی کا ازالہ ہوا
تمام عمر جو مرتا رہا ٹھکانے کو
آج مرنے کے بعد وہ بھی زمیں والا ہوا
حال کیا پوچھتے ہو یار میری حالت کا
زندہ ہوتے ہوئے بھی موت کا نوالا ہوا
آج ہر شخص ہی دھوکے کی زد میں ہے آصف
میں سمجھتا تھا میرے ساتھ ہی نرالا ہوا
آصف میؤ
No comments:
Post a Comment