Sunday, 22 August 2021

ترس کھایا ہوا اغیار کا سنبھالا ہوا

 ترس کھایا ہوا اغیار کا سنبھالا ہوا

دربدر پھرتا ہوں جنت سے میں نکالا ہوا

اسی کی مہر سے جیون میں ہے اندھیر پڑا 

جس کے آنے سے میری زیست میں اُجالا ہوا 

اپنے بچے کا نام میرے نام پر رکھ کر

وہ سمجھتی ہے بے وفائی کا ازالہ ہوا

تمام عمر جو مرتا رہا ٹھکانے کو 

آج مرنے کے بعد وہ بھی زمیں والا ہوا

حال کیا پوچھتے ہو یار میری حالت کا 

زندہ ہوتے ہوئے بھی موت کا نوالا ہوا 

آج ہر شخص ہی دھوکے کی زد میں ہے آصف

میں سمجھتا تھا میرے ساتھ ہی نرالا ہوا


آصف میؤ

No comments:

Post a Comment