خزاں کا ذکر نہ ذکرِ بہار کرتے رہے
تجھی کو تیری نگاہوں سے پیار کرتے رہے
متاعِ درد کہ بڑھتی رہی نہ جانے کیوں
علاجِ درد مِرے غم گسار کرتے رہے
دیار حسن کے جلوے تھے خوب تر لیکن
مِری نظر کے لیے انتظار کرتے رہے
مجھے تو رقص مصائب بھی راس آ نہ سکے
وہ بزم ہائے سرود و ستار کرتے رہے
کبھی یقین محبت نہ تھا نہ ہے لیکن
فریب خوردہ تِرا اعتبار کرتے رہے
دور آفریدی
No comments:
Post a Comment