کسی چائے پانی کے انتظام میں لگ گئی
تِری یاد آئی تو اُٹھ کے کام میں لگ گئی
یہ صعوبتیں یہ اذیتیں ہی کمائی تھیں
مِری ساری پونجی مِرے کلام میں لگ گئی
جو دوام ہو مجھے ایسا قرب نواز تو
کہ خوشی وصال کی ایک شام میں لگ گئی
میں رہی ہوں رقص کناں دیارِ جنون میں
مِری عمر عشق کے احترام میں لگ گئی
ملی اک گھڑی کہ بتا سکوں اسے حالِ دل
وہی اک گھڑی جو دعا سلام میں لگ گئی
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment