Tuesday, 24 August 2021

میں اسم اعظم کا ورد کر کے یہ جن نکالوں تو مارا جاؤں

 میں اسمِ اعظم کا وِرد کر کے یہ جِن نکالوں تو مارا جاؤں

کہ اپنے دل سے اگر محبت کی پِن نکالوں تو مارا جاؤں

مٹاؤں کیسے میں زائچوں سے کہ زندگی جن پہ کٹ رہی ہے

میں جنتری سے وصال رُت کے وہ سِن نکالوں تو مارا جاؤں

شگون اچھا ہے پر پرندہ تمہارے ہاتھوں میں پھنس گیا ہے

ہے فال ایسی کہ اب رہائی کا دن نکالوں تو مارا جاؤں

میں ایک سایہ کہ جی رہا ہوں تمہاری آنکھوں کی روشنی میں

سو ایک لمحہ بھی ان چراغوں کے بِن نکالوں تو مارا جاؤں

تکان بن کے مِرے تنفس کے تار میں تم رچے ہوئے ہو

کہ بس سہولت کے اس سفر سے کٹھن نکالوں تو مارا جاؤں


عاطف جاوید عاطف

No comments:

Post a Comment