Tuesday 24 August 2021

وہ کارواں کبود رنگ کارواں بھٹک چکے ہیں

 سمندراااااااا (سلویا پلاتھ کے لیے)


وہ کارواں

کبود رنگ کارواں بھٹک چکے ہیں

دوریوں کے پیچواں سراب میں

گھنیری شب کے باغ سے

تجھے پکارتا ہوں میں

سات گنبدوں کے دائرے

مِری صدا کے ہول سے

لرز رہے ہیں دم بہ دم

ریت بہ رہی ہے ہر طرف

بگولے چرخ کھا رہے ہیں

شش جہت

سمندراااااااا

جو دو قدم کا فاصلہ ہے تجھ تلک

وہ کٹ نہیں رہا

مِرے سُلگتے سانس سے ہے مرتعش

تِرا یہ عکس

دائرہ بہ دائرہ

رواں ہے دوریوں کے

بے وجود ساحلوں کی سمت

سُلگ رہی ہیں ہڈیاں

رگوں میں دھات کھولتی ہے

گوشت میں جہنموں کا

نیمروز ہے رکا ہوا

فضا میں چرچراتے ماس کی بساند ہے

سمندراااااااا

میں شہر ریت کر رہا ہوں

بستیوں میں راکھ اڑا رہا ہوں

دھرتیوں کو چیرتا ہوں 

ان کے بطن میں

یہ ریزگی سی کائنات کی

تڑخ رہی ہے میری ہر نگاہ سے

امڈ رہی ہے تیرگی

دہکتی تیرگی ازل کی میری سمت

(رات اپنی بود و ہست کے لیے

کسی سبب جواز کی

کنیز تو نہیں)

سمندراااااااا

مِرے کبود رنگ کارواں


انوار فطرت

No comments:

Post a Comment