Thursday 26 August 2021

زندگی ہم تیری بے رخی سے ڈر گئے

 زندگی ہم تیری بے رُخی سے ڈر گئے

اس قدر کہ مرے بغیر موت سے گزر گئے

دل بوجھل ہے، فضا سوگوار ہے

ابھی کہاں آنکھوں سے دُکھ کے منظر گئے

سوگواری ہے، اداسی ہے اس قدر

کہ ہم خود سے بھی مُکر گئے

کیا حسین لوگ تھےاور اس قدر ستم

پل بھرمیں ہواؤں میں بکھر گئے

کیا آرزوئیں ہوں گی، کیا خواب ہوں گے

بے بس آنکھوں میں جو تڑپ کے مر گئے

جانے کون سے بھید چھپے ہیں اُس پار

پلٹ کر نہ آئے کبھی جو اُس نگر گئے

رقص کرتی موت سے کوئی پوچھنا

ان لوگوں کو جانا تھا کہاں اور وہ کدھر گئے


رضوانہ انجم

No comments:

Post a Comment