Thursday, 26 August 2021

اس کی آنکھیں ہرے سمندر اس کی باتیں برف

 اس کی آنکھیں ہرے سمندر اس کی باتیں برف

پھر بھی نقشِ ہوا ہے دل پر اس کا اک اک حرف

کوئی بھرے کانٹوں سے دامن کوئی پھول چُنے

اپنا اپنا دامن سب کا،۔ اپنا اپنا ظرف

اس کی چاہ میں رانجھا بن کر بیلا بیلا گھومے

دھوپ کے اس صحرا میں اپنی عمر ہوئی ہے صَرف

اک دُوجے کو دیکھ نہ پائے برسوں بِیت گئے

آنکھوں کی پتلی میں کھو کر رہ گئے کتنے حرف

سُوکھے دریاؤں کی صورت قطرہ قطرہ ترسیں

جانے کب چمکے گا سورج کب پگھلے گی برف


حسن رضوی

No comments:

Post a Comment