آئینے کے رو برو اک آئینہ رکھتا ہوں میں
رات دن حیرت میں خود کو مبتلا رکھتا ہوں میں
دوستوں والی بھی اک خوبی ہے ان میں اس لیے
دشمنوں سے بھی مسلسل رابطہ رکھتا ہوں میں
روز و شب میں گھومتا ہوں وقت کی پرکار پر
اپنے چاروں سمت کوئی دائرہ رکھتا ہوں میں
آج کل خود سے بھی ہے رنجش کا کوئی سلسلہ
آج کل خود سے بھی تھوڑا فاصلہ رکھتا ہوں میں
چند یادیں، ایک چہرہ، ایک خواہش، ایک خواب
اپنے دل میں اور کیا ان کے سوا رکھتا ہوں میں
چند تصویریں، کتابیں، خوشبوئیں اور ایک پھول
اپنی الماری میں تابش اور کیا رکھتا ہوں میں
توصیف تابش
No comments:
Post a Comment