Thursday 26 August 2021

آئینے کے روبرو اک آئینہ رکھتا ہوں میں

 آئینے کے رو برو اک آئینہ رکھتا ہوں میں

رات دن حیرت میں خود کو مبتلا رکھتا ہوں میں

دوستوں والی بھی اک خوبی ہے ان میں اس لیے 

دشمنوں سے بھی مسلسل رابطہ رکھتا ہوں میں 

روز و شب میں گھومتا ہوں وقت کی پرکار پر 

اپنے چاروں سمت کوئی دائرہ رکھتا ہوں میں 

آج کل خود سے بھی ہے رنجش کا کوئی سلسلہ

آج کل خود سے بھی تھوڑا فاصلہ رکھتا ہوں میں

چند یادیں، ایک چہرہ، ایک خواہش، ایک خواب 

اپنے دل میں اور کیا ان کے سوا رکھتا ہوں میں

چند تصویریں، کتابیں، خوشبوئیں اور ایک پھول 

اپنی الماری میں تابش اور کیا رکھتا ہوں میں 


توصیف تابش

No comments:

Post a Comment