Thursday 26 August 2021

ارمان خواب راکھ کی صورت بکھر گئے

 ارمان، خواب راکھ کی صورت بکھر گئے

کل جب وہ صاف عہدِ وفا سے مُکر گئے 

حق کے لیے بلند صدا جو ذرا سی کی

پتھر مِرے مکان کے اندر اُتر گئے 

آفات کی گرفت میں آیا کھبی جو میں 

سب آشنا نگاہیں چُرا کے گزر گئے 

ممکن نہیں کہ لوٹ کے ہم آ سکیں کبھی 

سائے کی جستجو میں کہاں سے کدھر گئے 

دار و رسن کا شوق نہیں تھا کوئی مگر

الزام وہ تمام مِرے نام کر گئے 

جب سے وبا کا روگ ہے پھیلا خبر نہیں 

کچھ لوگ آس پاس تھے جانے کدھر گئے 

عارف کبھی نہ ان کو کنارا ملا یہاں 

طوفان کے بہاو سے جو لوگ ڈر گئے 

 

جاوید عارف

No comments:

Post a Comment