غم کی پونجی تو گنوانے سے رہے
درد سے کہہ دو، ٹھکانے سے رہے
صدقۂ دولتِ ہجراں ہی سہی
اشک اب ہم تو بہانے سے رہے
اس محبت کو، عقیدہ نہ کریں
الجھنیں، اور بڑھانے سے رہے
سوزشِ جان فزوں ہے، تو رہے
ہم لگی دل کی، بجھانے سے رہے
روز آتے ہیں تو آئیں آلام
ہم یہ مہمان، بھگانے سے رہے
ہر سکوں، مجھ سے خفا ہو کے گیا
روٹھے، اب ہم تو منانے سے رہے
اب نہ مانگیں گے، نئی کوئی دعا
پھر نیا درد، جگانے سے رہے
اک ندامت کا، گِراں بوجھ ہے جو
ہاں، وہ قصہ تو سنانے سے رہے
اوپری دل سے یوں پوچھو گے اگر
حال اپنا تو، سنانے سے رہے
کہنے کو کہہ تو دیں کاشف، لیکن
ہر خلش دل کی، مٹانے سے رہے
سید کاشف
No comments:
Post a Comment