Monday, 23 August 2021

خوشبوؤں کی دشت سے ہمسائیگی تڑپائے گی

 خوشبوؤں کی دشت سے ہمسائیگی تڑپائے گی 

جس کو بھی حاصل ہوئی یہ آگہی تڑپائے گی 

روشنی کو گنگ ہوتے جس نے دیکھا ہو کبھی 

کس حوالے سے اسے تیرہ شبی تڑپائے گی

کاڑھتا تھا میں ہی سنگ سخت پر ریشم سے پھول 

کیا خبر تھی یہ نظر شائستگی تڑپائے گی 

خواب تھے پایاب اس کا دکھ نہیں کب تھی خبر 

مجھ کو تعبیروں کی اک بے قامتی تڑپائے گی 

میں نہ کہتا تھا کہ شعلوں سے نہ کرنا دوستی 

میں نہ کہتا تھا کہ یہ دریا دلی تڑپائے گی 

زاویہ در زاویہ منظر بدلتے جائیں گے 

آنکھ ساری آنکھ بھر یہ زندگی تڑپائے گی 

نغمے چپ ہیں اور رُت بھی کہہ رہی ہے چپ رہو 

کس کو اب دل کی یہ نا آسودگی تڑپائے گی 

اور اک دن دشت بادل سے چرائیں گے نظر 

اور مجھ کو اس کی یہ بے خانگی تڑپائے گی 

کچھ نہ کچھ منظور دل سے رابطہ رہ جائے گا 

اس کو مجھ سے دوستی یا دشمنی تڑپائے گی


حکیم منظور

No comments:

Post a Comment