خوشبوؤں کی دشت سے ہمسائیگی تڑپائے گی
جس کو بھی حاصل ہوئی یہ آگہی تڑپائے گی
روشنی کو گنگ ہوتے جس نے دیکھا ہو کبھی
کس حوالے سے اسے تیرہ شبی تڑپائے گی
کاڑھتا تھا میں ہی سنگ سخت پر ریشم سے پھول
کیا خبر تھی یہ نظر شائستگی تڑپائے گی
خواب تھے پایاب اس کا دکھ نہیں کب تھی خبر
مجھ کو تعبیروں کی اک بے قامتی تڑپائے گی
میں نہ کہتا تھا کہ شعلوں سے نہ کرنا دوستی
میں نہ کہتا تھا کہ یہ دریا دلی تڑپائے گی
زاویہ در زاویہ منظر بدلتے جائیں گے
آنکھ ساری آنکھ بھر یہ زندگی تڑپائے گی
نغمے چپ ہیں اور رُت بھی کہہ رہی ہے چپ رہو
کس کو اب دل کی یہ نا آسودگی تڑپائے گی
اور اک دن دشت بادل سے چرائیں گے نظر
اور مجھ کو اس کی یہ بے خانگی تڑپائے گی
کچھ نہ کچھ منظور دل سے رابطہ رہ جائے گا
اس کو مجھ سے دوستی یا دشمنی تڑپائے گی
حکیم منظور
No comments:
Post a Comment