Monday 23 August 2021

ان آنکھوں سے پہلے بھی کہیں بات ہوئی ہے

 ان آنکھوں سے پہلے بھی کہیں بات ہوئی ہے

سوچوں گا کہاں تم سے ملاقات ہوئی ہے

تقدیسِِ محبت پہ کہیں حرف نہ آئے

تسکینِ ہوس شاملِ جذبات ہوئی ہے

یہ روشنی شائستہ اجالوں کا ہے دھوکہ

اے دوست ابھی ختم کہاں رات ہوئی ہے

حالات ہی ایسے ہیں کہ تھمتے نہیں آنسو

اب زندگی بے وقت کی برسات ہوئی ہے

جس روز سے ہم شہر تمنا میں لٹے ہیں

افسردگی ہم شکلِ مناجات ہوئی ہے

تم بھی تو رئیس آج نئے ذہن سے سوچو

اب تک تو غزل نذرِ روایات ہوئی


رئیس اختر

No comments:

Post a Comment