ان آنکھوں سے پہلے بھی کہیں بات ہوئی ہے
سوچوں گا کہاں تم سے ملاقات ہوئی ہے
تقدیسِِ محبت پہ کہیں حرف نہ آئے
تسکینِ ہوس شاملِ جذبات ہوئی ہے
یہ روشنی شائستہ اجالوں کا ہے دھوکہ
اے دوست ابھی ختم کہاں رات ہوئی ہے
حالات ہی ایسے ہیں کہ تھمتے نہیں آنسو
اب زندگی بے وقت کی برسات ہوئی ہے
جس روز سے ہم شہر تمنا میں لٹے ہیں
افسردگی ہم شکلِ مناجات ہوئی ہے
تم بھی تو رئیس آج نئے ذہن سے سوچو
اب تک تو غزل نذرِ روایات ہوئی
رئیس اختر
No comments:
Post a Comment