جنہیں وہ درہم و دینار گِن رہے ہیں میاں
ہم ایسی چیزوں کو آزار گن رہے ہیں میاں
یہ سوچ کر کہ اضافہ ہو گھر کی چیزوں میں
اک ایک چیز کئی بار گن رہے ہیں میاں
تو پھر یہ ہجر کے دن ختم کیوں نہیں ہوتے
میں اور وہ تو لگاتار گن رہے ہیں میاں
ابھی شروع کِیا ہے حساب موسم کا
اک ایک پھول، اک اک خار گن رہے ہیں میاں
کچھ ایسے دن بھی مِری زندگی میں شامل ہیں
کچھ ایسے دن بھی جو بیمار گن رہے ہیں میاں
ہمارے شہر کے لوگوں کو کیا ہوا، آخر
ہمیں بھی صاحبِ کردار گن رہے ہیں میاں
مل آئے باغ میں پھولوں سے جس کو ملنا ہے
کہ بیٹھے ہم یہیں اشجار گن رہے ہیں میاں
تو کیوں نہ جائیے قربان گننے والوں کے
بجھے ہوؤں کو چمکدار گن رہے ہیں میاں
بس اپنے چاہنے والوں پہ دھیان دے غائر
تِرے عدو تو تِرے یار گن رہے ہیں میاں
کاشف حسین غائر
No comments:
Post a Comment