Wednesday 25 August 2021

پھر سے مدہوش ہوئے بہکے بڑے بین کیے

 پھر سے مدہوش ہوئے، بہکے، بڑے بَین کیے

وہ بہت ہنسے میاں ہم نے بڑے بین کیے

کل وہاں عشق کے ماروں کی عزاداری تھی

اور ہم نے بھی وہاں جا کے بڑے بین کیے

ایک وہ ایک کہ جو پھر سے اداکار بنا

ایک یہ لوگ کہ جو سمجھے، بڑے بین کیے

اس نے جانا تھا کسی کام سے دو دن کےلیے 

ہم کہ پاگل تھے، بہت روئے، بڑے بین کیے

تیرا عاشق تھا کوئی، اس سے بڑی خوب جمی

ایک مذہب کے تھے، مل بیٹھے، بڑے بین کیے

میں تو ہنس ہنس کے سناتا رہا تیری باتیں 

جو سمجھدار تھے وہ بولے، بڑے بین کیے

پھر ترے غم کو چھپانے کا سہارا ڈھونڈا 

پھر کسی قبر پہ جا بیٹھے، بڑے بین کیے

آج جب خود کو ہوا عشق، تو سر پیٹ لیا 

ہم پہ تم ہنستے تھے اور اپنے بڑے بین کیے


افکار علوی

No comments:

Post a Comment